Friday, 2 May 2014

"Hum Aaj Bhi Jugni se Bahir Nahin Niklay" by Javed Chaudhry (2nd May, 2014)

"Let The Heavens Fall" by Chaudhry Faisal Hussain

Let the heavens fall

 Jul 23, 2013 07:24am
 
THE retirement of a chief justice may be a low-key affair all over the world, but not in Pakistan.
The benefit of extended service beyond the period of superannuation to the incumbent chief justice of Pakistan might perhaps be among the most debated topics in the country these days.
In fact, a petition — deemed to be behind the debate — was filed in the Supreme Court seeking direction for adding a period of 22 months to the service of the chief justice — a period during which he could not perform his duties as a judge of the Supreme Court.
Reportedly, the petition was returned by the Supreme Court registrar’s office due to some technical objections.
Without being prejudiced towards any interpretation, under the prevailing legal and constitutional position the issue of extension in the tenure of any constitutional office-holder, including the chief justice or any other judge, after attaining the age of retirement, is not even a debatable issue, in my humble opinion.
The appointments of judges in the superior courts are constitutional appointments. The Constitution delineates the qualifications and procedure for elevation in the superior courts and under the Constitution; the age of the superannuation of a judge of the Supreme Court is 65 years and for a high court judge it is 62 years — unless he resigns sooner or is removed from his post.
The appointments made under the Constitution cannot be extended vide controversial judicial orders for the simple reason that the Supreme Court cannot enact or strike down any provision of the Constitution, although it can interpret the document.
Therefore, the interpretation is to give effect to the true intent of the constitutional provision with due caution that it must not be something that amounts to rewriting or amending the Constitution for self-serving purposes.
After the takeover of October 1999 and later, through the proclamation of emergency on Nov 3, 2007, a number of judges, who had not achieved the age of superannuation, were sacked by Pervez Musharraf for allegedly overstepping the limits of judicial authority and for taking over executive and legislative functions. The incumbent chief justice and many other judges were also amongst them.
Some of these judges have retired after attaining the age of retirement. If the extension is not offered to all those judges who were deposed during the military-led regime, it would be highly unfair to give this option to one judge only.
We can reflect on the Supreme Court’s judgement ‘Federation of Pakistan through secretary Establishment Division versus Shahid Hayat and another’. This reviewed an earlier judgement which gave the benefit of extended service beyond the period of superannuation to the respondent by a bench headed by retired Justice Abdul Hameed Dogar. The review held that any such order would likely open a Pandora’s box of litigation. This was because anyone having ever been suspended for a certain period of time would come to the court claiming the extension of service for the interrupted period.
Hence enhancing the judges’ tenure of service might be considered as a bribe by the executive. The Supreme Court in the Zafar Ali Shah case used its powers beyond constitutional limits and provided unprecedented authority to retired Gen Pervez Musharraf to amend the Constitution (the incumbent chief justice was also a member of the bench).
The favour was ‘repaid’ by the general by the enhancement of the retirement age of judges of the Supreme Court to 68 years and for a judge of the high court to 65 years, through the Legal Framework Order 2002.
This ‘concession’ was later withdrawn in the 17th Amendment and the age of retirement reverted to 65 and 62 years; resultantly many sitting judges went home the same evening.
The extension in the tenure of service could only be possible through a constitutional amendment in Article 179.
But the numbers suggest that even if the ruling party intends to bring an amendment to enhance the age of retirement of the judges, it lacks the required two-thirds majority of the total membership in parliament.
The honour and respect of esteemed institutions like the judiciary come through strict adherence to honourable conventions. I firmly believe the chief justice of Pakistan would not like to become controversial in the twilight of his career.
Nonetheless, the petition that was filed to seek direction was seemingly a deliberate effort to put the honourable judges in an awkward position. Judges of the superior courts come and go; the most important thing is to have powerful and effective institutions and stick to the law and Constitution even if the heavens fall.
The writer is a lawyer.

"Please meri madad kijiye" by javed chaudhry

Must read

Thursday, 1 May 2014

"Ye Shaheedon ka din ha" by Haroon-ul-Rasheed (30th April, 2014)


"Zindagi ka udas jangal" by Rauf Klasra (30th April, 2014)

An interesting column

"Chand Satrein He Kafi Hein" By Nazeer Naji (29th April, 2014)


"Toheen" a must read column by Javed Chaudhry (25th December, 2011)

A really Informative and Worth-reading Column

"Haathi k Monh se Ganna Khainchnay ki Sazaa" by Javed Chaudhray (23rd April, 2014)

ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچنے کی سزا


ہاتھی انسان کی پہلی سواری تھا اور بھیڑیا پہلا پالتو جانور۔ ہاتھی کو سدھانا‘ اشاروں پر چلانا اور اس سے سواری اور جنگ کا کام لینا انتہائی ٹیکنیکل کام تھا‘ انسان نے سب سے پہلے یہ فن سیکھا۔ ہاتھی روز نہاتے ہیں‘ یہ رات کے وقت جنگل سے دریائوں‘ ندیوں اور جھیلوں کی طرف جاتے ہیں‘ ہاتھی پکڑنے والے لوگ ان کے راستے میں گڑھا کھود کر اس پر گھاس اور شاخیں رکھ دیتے ہیں‘ ہاتھی چلتے چلتے گڑھے میں گر جاتا ہے‘ یہ گڑھے میں چنگاڑنے لگتا ہے‘ ہاتھی کی کوشش ہوتی ہے یہ گڑھا توڑ کر باہر آ جائے لیکن دنیا کا طاقتور ترین جانور بھی ایک خاص حد پر پہنچ کر بے بس ہو جاتا ہے‘ ہاتھی گڑھے سے نکلنے کی کوشش ترک کر دیتا ہے۔
ہاتھی پکڑنے والے ہاتھی کو گڑھے میں گرا کر گھر چلے جاتے ہیں‘ یہ پانچ دن بعد واپس آتے ہیں‘ ہاتھی اس وقت تک بھوک‘ پیاس اور سرتوڑ جدوجہد سے نڈھال ہو چکا ہوتا ہے‘ یہ لوگ ہاتھی کو گڑھے میں خوراک اور پانی دیتے ہیں‘ ہاتھی چارہ کھاتا ہے‘ پانی پیتا ہے اور ان کو ممنونیت بھری نظروں سے دیکھتا ہے‘ یہ لوگ کئی دنوں تک اسے خوراک اور پانی دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہاتھی اس روٹین اور اس مہربانی کو اپنا مقدر سمجھ لیتا ہے‘ یہ لوگ خوراک سے قبل اس سے چند چھوٹی چھوٹی شرائط بھی منواتے ہیں‘ مثلاً سونڈ اٹھا کردکھائو‘ چنگاڑ لگائو اور دم اٹھائو وغیرہ وغیرہ۔ ہاتھی یہ بھی کرنے لگتا ہے‘ یہ لوگ اس کے بعد گڑھے کا ایک کنارہ توڑتے ہیں‘ مٹی ہموار کرتے ہیں اور پھر ہاتھی کو دو دن بھوکا رکھ کر اس ٹوٹے ہوئے کنارے کے ذریعے باہر لے آتے ہیں‘ ہاتھی کو اس دن زیادہ مقدار میں چارہ اور پانی دیا جاتا ہے۔
یہ لوگ اسے نہلاتے بھی ہیں اور یوں ہاتھی‘ ہاتھی سے سوزوکی کیری ڈبہ بن جاتا ہے‘ ہاتھیوں کو سدھانے والے لوگ دنیا کے قدیم ترین فنکار ہیں‘ یہ فن اور فنکاری ہزاروں سال سے چل رہی ہے‘ یہ ہاتھی سے ایک مخصوص زبان میں بات کرتے ہیں‘ یہ زبان دنیا کی قدیم ترین زبان ہے اور یہ صرف ان فنکاروں تک محدود ہے‘ یہ لوگ کسی دوسرے شخص کو یہ زبان نہیں سکھاتے‘ یہ لوگ ہزاروں سال کے تجربے کے بعد ہاتھیوں کے معاملے میں چند اصولوں تک پہنچے ہیں۔
یہ اصول باقاعدہ محاورے ہیں اور یہ محاورے ہر اس جگہ انسان کی رہنمائی کرتے ہیں جہاں کوئی کمزور شخص کسی طاقتور شخص کے سامنے کھڑا ہوتا ہے‘ مثلاً ہاتھی سدھانے والے کہتے ہیں‘ بھوک ہاتھی کو بندر بنا دیتی ہے‘ بدمست ہاتھی اپنی فوج کو روند ڈالتا ہے اور جسم ہاتھی کا اور دماغ چوہے کا‘‘ وغیرہ وغیرہ مگر ان لوگوں کا کلاسیکل محاورہ وہ ہے جسے تیسری دنیا کے ہر سمجھ دار شخص کو اپنی زندگی کا آئین بنا لینا چاہیے‘ یہ محاورہ ہے ’’ آپ کبھی ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچنے کی غلطی نہ کریں‘‘ ہاتھی سدھانے والوں کا خیال ہے‘ خوراک ہاتھی کو زندگی بھر کے لیے غلام بناتی ہے‘ ہاتھی اس کی قدر و قیمت سے واقف ہوتا ہے چنانچہ آپ جب اس کے منہ سے گنا چھیننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہاتھی اس ’’ظلم‘‘ پر کمپرومائز نہیں کرتا اور یہ غصے میں اپنے ہی ماسٹر کو پائوں تلے روند ڈالتا ہے۔
دنیا میں لڑائی کے 18 بڑے فارمولے ہیں‘ ان فارمولوں میں اہم ترین فارمولہ یہ ہے‘ آپ جب تک مرنے کا فیصلہ نہیں کرتے‘ آپ اس وقت تک اپنے سے طاقتور حریف سے لڑائی کا رسک نہ لیں‘ دوسرا بڑا اصول ہے‘ آپ بلاوجہ ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچنے کی غلطی نہ کریں لیکن پاکستان کی سیاست میں پچھلے پندرہ دنوں میں یہ دونوں غلطیاں ہوئیں‘ فوج پاکستان کا طاقتور اور منظم ترین ادارہ ہے‘ فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فوج سے وفادار رہتے ہیں‘ جنرل یحییٰ خان جنرل ایوب کو گھر بھجواتے ہیں لیکن یہ کوشش کے باوجود ایوب خان کو بے عزت نہیں کر پاتے‘ فوج آخری سانس تک ایوب خان کی عزت کی چوکیداری کرتی رہی‘ جنرل یحییٰ خان 1971ء کی جنگ ہار جاتے ہیں‘ یہ آدھا پاکستان گنوا بیٹھتے ہیں۔
فوج کے جوان آفیسر انھیں ساتھیوں سمیت مستعفی ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان کا ٹرائل شروع کرتے ہیں لیکن یہ فخر ایشیا ہونے کے باوجود جنرل یحییٰ خان کو سزا نہیں دلا پاتے‘ جنرل یحییٰ خان 10 اگست 1980ء کو انتقال کرتے ہیں تو فوج ان کے تابوت کو قومی پرچم میں لپیٹتی ہے اور انھیں رائفلوں کی سلامی دے کر دفن کرتی ہے‘ جنرل نیازی پاکستانی تاریخ کا دھبہ ہیں‘ یہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالتے ہیں‘ پاکستانی تاریخ آج بھی اس مقام پر پہنچ کر شرمندہ ہو جاتی ہے لیکن یہ جنرل نیازی جب بھارتی قید سے رہا ہو کر لاہور پہنچتے ہیں تو انھیں تمام مراعات بھی ملتی ہیں‘ تمام سہولتیں بھی ملتی ہیں اور یہ مرنے کے بعد بھی جنرل رہتے ہیں‘ فوج نے ان کے نام سے جنرل کا لفظ تک نہیں ہٹنے دیا‘ جنرل ضیاء الحق بے شمار سابق جرنیلوں سے نفرت کرتے تھے‘ یہ جنرل ٹکا خان کو پسند نہیں کرتے تھے۔
یہ جنرل مجید ملک کو برا سمجھتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق کے وہ رفقاء کار بھی ایک ایک کر کے ان سے دور ہو گئے جنہوں نے انھیں تخت پر بٹھایا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی یہ نفرت بھی ریڈ لائین کراس نہ کر سکی‘ یہ اپنے کسی مخالف جنرل سے انتقام نہ لے سکے‘ جنرل پرویز مشرف کھلے عام جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل کو ’’سوڈو انٹلیکچول‘‘ کہتے تھے‘ جنرل بیگ اور جنرل گل صدر مشرف کو برا کہتے تھے اور جنرل مشرف میڈیا پر ان کی بے عزتی کرتے تھے‘ یہ دونوں جنرل آرمی ہائوس سے پانچ سو میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف اپنی تمام تر نفرت کے باوجود ان کا بال تک بیکا نہ کر سکے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے تھے‘ میں نے اگر یہ غلطی کی تو وہ فوج جو میرے کہنے پر ڈیرہ بگٹی اور لال مسجد تک پہنچ جاتی ہے یہ ان جنرلوں کی بے عزتی برداشت نہیں کرے گی ۔
جنرل بیگ اور جنرل حمید گل روز جنرل پرویز مشرف کے خلاف بیانات کی توپ داغتے تھے مگر جنرل مشرف ان کے چوبارے پر اپنا کبوتر تک نہیں بٹھا سکے چنانچہ آپ خود فیصلہ کر لیجیے جو فوج اپنے حاضر سروس اور بااختیار جرنیلوں کو ریٹائر جرنیلوں کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیتی‘ وہ فوج کسی سویلین حکمران کو جرنیلوں کی تذلیل کرنے دے گی؟ یہ ملک بڑی مشکل سے اس لیول تک پہنچا تھا کہ ہم کھلی آنکھوں سے بااقتدار جنرل کو یونیفارم اتارتے‘ استعفیٰ دیتے‘ ملک سے باہر جاتے‘ اس کے خلاف مقدمات قائم ہوتے‘ اس کا نام ای سی ایل پر آتے اور آخر میں اس کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہوتے دیکھتے مگر حکومت نے ہاتھی کے منہ سے گنا کھینچنا شروع کردیا۔
خواجہ صاحبان کے دو بیانات ملک اور جمہوریت دونوں کو 12 اکتوبر 1999ء کی پوزیشن پر لے آئے‘ حکومت اور فوج کے درمیان خوفناک تنازعہ پیدا ہو گیا‘ حکومت کو اب اس تنازعے سے نکلنے کے لیے جنرل پرویز مشرف پر اپنا موقف بھی نرم کرنا پڑے گا اور خواجہ محمد آصف جیسے مخلص‘ بہادر اور ایماندار شخص کی قربانی بھی دینا پڑے گی‘ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے جب تک جنرل پرویز مشرف ملک میں رہیں گے اور خواجہ آصف وزیر دفاع اور پانی اور بجلی کے وزیر رہیں گے فوج اور حکومت کے تعلقات اس وقت تک نارمل نہیں ہو سکیں گے۔
ہم لوگ ابھی اس آتش فشاں کو پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ میڈیا نے ہاتھی کے منہ سے دوسرا گنا کھینچ لیا‘ حامد میر ملک کا بڑا نام ہیں‘ ان کے بارے میں سارا پروپیگنڈا غلط ہے‘ یہ محب وطن‘مخلص‘بہادر اور محنتی صحافی ہیں‘ یہ کسی کے ایجنٹ بھی نہیں ہیں‘یہ صرف اور صرف اپنے ضمیر کے ایجنٹ ہیں‘ حامد پر واقعی حملہ ہوا‘ یہ زخمی بھی ہیں اور حملے کے بعد ان کے بھائی عامر میر کے جذبات بھی یہی ہونے چاہیے تھے لیکن جیو نے ان جذبات کو پالیسی بنا کر وہی غلطی کی جو خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق سے سرزد ہوئی اور یوں جمہوریت کی طرح میڈیا بھی مشکل میں آ گیا‘ ہمارا میڈیا بھی ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر اس لیول پر آیا تھا جہاں سے ہم باوردی صدر کے خلاف بات کر سکتے تھے‘ ہم فوج کے سامنے دو مئی‘لال مسجد‘اکبربگٹی ‘اصغرخان کیس‘مسنگ پرسنز اور ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ رکھ سکتے تھے‘ ہم ان کے خلاف سلیم شہزاد کمیشن بنوا سکتے تھے مگر ’’جیو‘‘ کی ایک غلطی نے آزادی کی اس ساری فصل کو آگ لگا دی اور ہم اس سنسرشپ کی طرف واپس مڑگئے جس سے نکلنے کے لیے ملک کے صحافیوں نے 60 سال جدو جہد کی تھی۔
یہ معاملہ بھی شاید سنبھل جاتا مگر رہی سہی کسر گنا کھینچنے کی متمنی حکومت نے پوری کر دی‘وزیراعظم ‘وزیردفاع یا وزیر اطلاعات و نشریات اگر 19 یا 20اپریل کو آئی ایس آئی کے حق میں بیان دے دیتے‘یہ دو دن قبل وہ پریس ریلیز جاری کردیتے جو چوہدری نثار علی خان نے 22اپریل کو جاری کی تھی تو آج نوبت یہاں تک نہ آتی‘ میڈیا کی غلطی اور حکومت کی سستی آخری کیل ثابت ہوئی اور آج ہاتھی کا ایک پائوں حکومت کے اوپر ہے اور دوسرا پائوں میڈیا پر ہے اور ہم نے اگر معاملات ٹھیک بھی کر لیے‘ ہم نے اگر ٹی وی چینلز بچا بھی لیے تو بھی ہمیں اپنی بے لگام آزادی ضرور قربان کرنا پڑے گی‘ ہم آج کے بعد شاید نیوز کو بریکنگ نیوز نہ بنا سکیں اور ہم ملک کی چار ہزار ریڈ لائینز پر بھی پائوں نہیں رکھ سکیں گے اور  یہ گنا کھینچنے کی کم سے کم سزا ہوگی۔

"Major Amir se Bardaasht na hua" by Nazir Naji (30th April, 2014)


"Murghiyon se Batakhon tak" by M. Ibrahim Khan


"America Ko Pakarna Mushkil Hi Nahi Na Mumkin Hai" By Wusatullah khan (29th October, 2013)


''Body Language'', A Column by Javed Chaudhray (29th October 2013)